لیکھنی ناول-22-Oct-2023
تم کو مانا منزل اور دل مسافر ہو گیا از اریج شاہ قسط نمبر9
تمہیں ہر مسئلہ کا یہی نظر آتا ہے کہ شادی نہیں کروں گی ۔۔؟مصطفی چڑ کر بولا ۔ ہاں کیونکہ میں ایک ڈرپوک انسان سے کبھی شادی نہیں کروں گی دعا نے کھلم کھلا چیلنج کیا ۔۔ ڈرپوک کسے کہا تم نے مصطفی کو غصہ آیا ۔۔ اب بھی بتانے کی ضرورت ہے ۔دعا کو اس کے غصے کا کوئی اثر نہ ہوا ۔ مصطفی آپ کو ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے میں ہوں نہ آپ کے ساتھ ۔ اگر آپ کو آنچ بھی آئی تو میں ان کی اینٹ سے اینٹ بجا دوں گی ۔ دعا کچھ زیادہ ہی جذبات میں بہہ رہی تھی ۔ مصطفیٰ ہم دونوں مل کر انہیں بچائیں گے ۔چلیے واپس چلتے ہیں ۔۔۔ دعا واپس جاؤں گا لیکن تم نہیں صرف میں ۔تم ابھی اور اسی وقت گھر جاؤ گی اور جہاں تک لڑکیوں کا سوال ہے تمہیں ان کی فکر کرنے کی ضرورت ہے میں نے بچا لوں گا ۔۔ مصطفی نے اسے سمجھانا چاہا کیونکہ وہ اسے یہاں سے نکالنا چاہتا تھا ۔ بالکل بھی نہیں میں آپ کو اکیلے چھوڑ کر نہیں جاؤں گی ۔دعا نے فیصلہ سنایا ۔ نہیں دعا اگر تم یہاں سے نہیں جاؤ گی تو پولیس سٹیشن جا کر بتاؤ گی کیسے کہ میں یہاں پھسا ہوا ہوں۔ مطلب آپ چاہتے ہیں کہ میں پولیس سٹیشن جاؤں اور انہیں یہ بتاؤ کہ آپ یہاں پر پھنسے ہوئے ہیں دعانے اس کی بات کو سمجھتے ہوئے کہا ہاں یہی چاہتا ہوں اور تمھیں ابھی یہاں سے نکلنا ہوگا ۔۔مصطفی جلدی سے دعا کو یہاں سے نکالنا چاہتا تھا ۔ لیکن آپ فون کرکے بھی تو بتا سکتے ہیں اوران کو یہاں بلا سکتے ہیں دعا نے اپنے دماغ کو کام پر لگایا ۔ نہیں دعا میں ایسا نہیں کرسکتا ان لوگوں کے سامنے میں فون یوز نہیں کرسکتا ان کو پتہ چل جائے گا کہ ہم ان کے خلاف کوئی پلائینگ کر رہے ہیں ۔اور اگر میں تمہارے ساتھ چلا گیا تھا یہ لوگ پیچھے سے غائب ہو جائیں گے ہاں یہ بھی ہے لیکن میں جاؤنگی کیسے۔۔۔؟ دعا نے اپنا مسئلہ پیش کیا ۔ گاڑی سے اور کیسے۔۔ تمہیں گاڑی چلانی آتی ہے نا۔۔۔؟ مصطفی نے پوچھا ففٹی پرسنٹ ۔دعا نے فوراً جواب دیا ۔وہ کیا ہے نہ مجھے گاڑی چلانی آتی ہے لیکن بابا چلانے نہیں دیتے اس لئے میں ٹھیک سے نہیں کہہ سکتی کہ میں چلا پاؤںگی ۔ لیکن آپ فکر نہ کرے آپ کو بلکل گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے میں پولیس سٹیشن جاؤں گی اور ان لوگوں کو یہاں لے کے آؤں گی ۔ آپ بس ان لڑکیوں کو بچائیں ۔ دعا نے فیصلہ سنایا ۔ لیکن اگر تمہیں گاڑی چلانی نہیں آتی تو کیسے چلاؤ گی مصطفیٰ نے پوچھا ۔ میں نے یہ نہیں کہا کہ مجھے گاڑی چلانی نہیں آتی میں نے یہ کہا کہ مجھے ففٹی پرسنٹ گاڑی چلانی آتی ہے اور ویسے بھی آپ مجھے جانتے نہیں ہیں ۔آپ کو میری فکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے ۔ لیکن پہلے آپ مجھ سے وعدہ کریں کہ آپ اکیلے طارق انکل کو نہیں ماریں گے میں واپس آؤں گی تو ہم دونوں مل کر مارے گے ۔دعا کی عجیب و غریب شرط پر مصطفی کو ہنسی آرہی تھی لیکن تم اسے کیوں مارنا چاہتی ہو وہ تو تمہارے انکل ہے نا ۔۔؟مصطفی نے ہنسی دبا کر پوچھا ۔ وہ اندر میری سہیلی ہے نہ ردا ۔طارق انکل نے ا سے تھپڑ مارا اور میں نے ان سے بدلہ لینا ہے ۔دعانے وجہ بتائی۔ ٹھیک ہے مجھے منظور ہے ۔ مصطفی جانتا تھا کہ ولی دعا کو اپنے ساتھ واپس نہیں لائے گا دعا نے ڈرائیونگ سیٹ سنبھال لی اور گاڑی سٹارٹ کردی۔ جبکہ مصطفیٰ اس کے خیریت کی دعا مانگنے لگا ۔ مصطفی کے لئے ان لوگوں کو مارنا مشکل نہ تھا لیکن وہ پھر بھی دعا کی زندگی پر کوئی رسک نہیں لینا چاہتا تھا ۔ کیونکہ یہ لوگ جان چکے تھے کہ دعا اس کی کمزوری ہے اور اس کے لیے وہ کچھ بھی کر سکتا ہے ۔ دعا کو یہاں سے بھیج کر وہ بے فکر ہو چکا تھا اس کا مقصد ان لڑکیوں کو یہاں سے بچانا تھا کیونکہ ان لڑکیوں کو دعا کی شادی میں بھی آنا تھا ورنہ دعا اس سے شادی نہیں کرنے والی تھی اس کی بات سوچ کر وہ مسکرایا اور واپس اڈے کی طرف چل دیا ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دعا جیسے تسے پولیس سٹیشن پہنچنا چاہتی تھی اس نے جان بوجھ کر وہ والا راستہ لیا جس میں لوگ کم تھے تاکہ اس کی ڈرائیونگ سے کسی کو بھی کوئی نقصان نہ پہنچے ۔ تقریباً 20 منٹ کے مسلسل ڈرائیونگ کے بعد وہ پولیس سٹیشن پہنچ ائی ۔ آج اسے یقین ہو چکا تھا کہ اسے ففٹی پرسنٹ نہیں بلکہ ہنڈرڈ پرسنٹ ڈرائیونگ آتی ہے وہ تو بس بابا تھی جو اسے گاڑی چلانے نہیں دیتے تھے ۔ وہ اپنی ڈرائیونگ کو شاباشی دے کر اندر پولیس سٹیشن چلی گئی۔سامنے کرسی پر ولی بیٹھا تھا جو ان کی شادی میں آیا تھا اور کام میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہا تھا ۔ ولی اسے دیکھ کر کھڑا ہو گیا وہ اسے پہچان چکا تھا ۔ ارے بھابھی آپ یہاں سب خیریت تو ہے ولی نے فوراً پوچھا ۔ سب خیریت ہے آپ جلدی سے پولیس والوں کو لے اور میرے ساتھ چلیں اس نے فوراًولی کو آرڈر دیا ۔ لیکن بھابھی جانا کہاں ہے یہ بھی تو بتائیں ولی نے پوچھا ۔ وہ طارق انکل نا میرا مطلب ہے طارق بھٹی انکل ۔وہ اڈے پر ہے اور مصطفی آپ سب کو بلا رہے ہیں وہ بے چارے سب کے سامنے فون نہیں کر سکتے تھے آپ کو ورنہ ان لوگوں کو شک ہو جاتا ہے اور خود یہاں آ نہیں سکتے تھے کیونکہ اگر وہ یہاں آ جاتے تو وہ لوگ میری سہیلیوں کو لے کر کہیں غائب ہو جاتے اسی لئے مجھے بھیجا ہے ۔دعا نے فوراً ساری تفصیل بتائی ۔ جبکہ ولی نے اس کی تفصیل پر غور کرنے کی بجائے فوراً پولیس والوں کو آرڈر دیا اور باہر نکل گئے ۔ اکیلے کہاں جارہے ہیں مصطفی نے کہا تھا تم بھی واپس آنا ۔اسے پتہ تھا کہ پولیس والے اسے اپنے ساتھ لے کر نہیں جانے والے اس لیے چھوٹا سا جھوٹ بول دیا ۔ لیکن آپ کو ساتھ آنے کے لئے کیوں کہا ہے ولی نے خیرت سے پوچھا ۔ کیونکہ وہ مجھے دیکھے بغیر رہ نہیں سکتے آپ کو کوئی مسئلہ ہے دعا نے اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا ۔ جبکہ ولی شرمندہ ہو کر گردن نفی میں۔ ہلانے لگا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جب تک پولیس وہاں پر پہنچی مصطفی اپنا کام کر چکا تھا طارق بھٹی نیچے زمین پر پڑا اتھا یقیناً مصطفی اس کی درگت بنا چکا تھا ۔ یہ چیٹنگ ہے دعا نہ خوش ہونے کی بجائے اس پر الزام لگا دیا ۔ مصطفٰی اسے دیکھ کر مسکرایا ۔ جبکہ ولی اور باقی پولیس والے آڈے کی چھان بین کرنے لگے ۔ کیا چیٹنگ ہے ۔۔؟مصطفی نے حیران ہو کر پوچھا ۔ آپ نے کہا تھا جب میں واپس آؤں گی آپ اور میں مل کر طارق انکل کو ماریں گے اکیلے ہی۔آپ نے مارا ۔آپ بہت بڑے چیٹر ہے میں آپ سے شادی نہیں کروں گی ۔ دعا ناراض ہوکر گاڑی کے اندر جا کے بیٹھے گئی۔ کیا ہوا اب کیوں روٹھ گئی تجھ سے ولی نے قریب آکر پوچھا ۔ یہ چھوڑ تو یہ بتا کہ اسے اپنے ساتھ کیوں لایا مصطفیٰ نے غصے سے پوچھا ۔ کیونکہ تو اسے دیکھے بغیر رہ نہیں سکتا اسی کے انداز میں بولا ۔ کیا۔۔؟ یہ کس سے نے کہا تجھ سے ۔۔؟مصطفی نے حیرت سے پوچھا۔ ویسے تو میں خود بھی جانتا ہوں لیکن آج بھابھی نے بتایا ہے ولی نے مسکراتے ہوئے آنکھ ماری ۔ یار بھری توپ چیز ہے یہ ۔۔ مصطفی نے سر کھجاتے ہوئے کہا دعا یار بات تو سن لو ۔طارق مجھ پر حملہ کر رہا تھا اسے نہیں مانتا تو میں مر جاتا ہوں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ نہ جانے کتنے بہانے بنا کر دعا کو منانے کی کوشش کر رہا تھا آپ جو بھی کرنا چاہتے ہیں کرے کسی کو مارتے کسی کو چھوڑ دے میرا کوئی مطلب نہیں ہے بس اب مجھے آپ سے شادی نہیں کرنی کیوں نہیں کرنی۔۔۔؟ کیونکہ آپ ایک چیٹر ہےمیں کسی چیٹر سے شادی نہیں کر سکتی ۔ دعا کا ہر بات میں ایک ہی جواب تھا جس سے مصطفی اب تنگ آچکا تھا ساری لڑکیوں کو پولیس اسٹیشن پہنچا کران کے ماں باپ کوخبر دے دی کچھ نے تو پہچان لیا لیکن کچھ لوگوں نے پہچاننے سے بھی انکار کردیا ۔ شاید ان لوگوں کو اپنی عزت کا ڈر تھا ۔ ان لڑکیوں کی کوئی غلطی نہیں تھی لیکن وہ جانتی تھی کہ انہیں آپ زندگی بھر سزا بھگتنی ہوگی مصطفی نے اپنی زندگی میں ایسے بہت سارے کیسز دیکھے تھے ۔ چلو دعا میں تمہیں گھر چھوڑ دو ں۔ مصطفی نے دعا سے کہا میں خود گاڑی چلا سکتی ہوں ۔یہ بات دعا کو خود بھی آج ہی پتہ چلی تھی اچھا ٹھیک ہے بابا تم مجھے چھوڑ دو ۔مصطفی نے مسکرا کر کہا جب ولی ان کے پاس آ کر رکا ۔ ولی بھائی آپ کو لفٹ چاہئے میں بہت اچھی گاڑی چلاتی ہوں آپ کو چھوڑ دوں گی مصطفی کو چھوڑ کر اس نے ولی کو آفر کی۔ ہاں کیوں نہیں چھوڑدیں میں ویسے بھی مصطفی سے لفٹ لینے والا تھا ۔ تو پھر چلیے دعا کہہ کر آگے بڑھ گئی ۔ جب کہ ولی کے ساتھ مصطفیٰ بھی آکر گاڑی کی فرنٹ سیٹ پے بیٹھا ۔ تو پھر اب تم دونوں کی شادی کب ہوگی ولی نے پوچھا ۔ وہ تو چاچو اور بابا بتائیں گے مصطفیٰ نے کہا ۔ نہیں ہوگی دعانے مصطفی کو دیکھ کر کہا ۔ کیوں نہیں ہوگی ولی نے پوچھا ۔ کیونکہ میں نے چیٹر سے شادی نہیں کرنی مصطفی سر پکڑ کر بیٹھ گیا۔ ہاں مصطفیٰ نے چیٹنگ تو کی ہے تمہارے ساتھ اسے اس طرح سے طارق کو نہیں مارنا چاہئے تھا تمہارا انتظار کرنا چاہیے تھا ۔ ولی نے مصطفی کو سنایا کیوں کہ مصطفی اسے بتا چکا تھا کہ دعا اس سے کیوں ناراض ہے۔ دعا آگے دیکھ کر گاڑی چلاو تم اتنی بھی اچھی ڈرائیور نہیں ہو ۔ دعا آکساٹیڈ ہوکر پیچھے ولی کی طرف دیکھ رہی تھی جو اس کا ساتھ دے رہا تھا ۔جب مصطفی نے اسے کہا۔ تعریف تو کسی چیز میں کر نہیں سکتے نخس تو مت نکالا کرو ۔دعا کہا ں چپ بیٹھنے والوں میں سے تھی ۔ پیاری بہنا تم شادی نہ کرنے کی بجائے بدلا بھی تو لے سکتی ہو ۔ ولی نے اسے کھلم کھلا مشورہ دیا جس پر مصطفی نے اسے گھورا ۔ ارے گھور کیا رہا ہے تو نے اتنا ظلم کیا ہے میری بہن کے ساتھ بدلہ لینا چاہیے ولی نے اس کی گھوری کی پروا نہ کرتے ہوئے کہا ۔ صبح تک یہ تیری بھابھی نہیں تھی مصطفی نے پوچھا یہ لو بس جل گئے جل کر کولا ہوگئے اب دیکھنا میں آپ سے شادی کرکے کیسے آپ سے بدلے لیتی ہوں میرے رشتہ دار تک برداشت نہیں ہوتے آپ سے دعا نے فوراً بات اپنی طرف کھینچی ۔ جبکہ مصطفی نے پیچھے مڑ کر دیکھا جہاں ولی بڑے مزے سے سیٹ کے ساتھ ٹیک لگا کر اسے آنکھ مار رہا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بابا کو کچھ دیر پہلے گھر واپس لایا گیا تھا وہ ابھی آرام کر رہے تھے جب یہ لوگ گھر پہنچے پھر وہی ہوا گھر پہنچتے ہی دعا نے سب سے پہلے تایاابو سےکہا کہ اس کو جلدی سے جلدی شادی کرنی ہے ۔ کیونکہ اب اس کی 19 سہیلیاں اور ہیں جو کہ شادی پے آنے والی ہے اور تواور انہیں اپنی بہادری کی نجانے کون کون سے قصے بھی سنا ڈالے ۔ اور بابا تو یہ سب کچھ ایسے سن رہے تھے جیسے پہلی اور آخری بار سن رہے ہو ناصرف دلچسپی دکھا رہے تھے بلکہ اس کو شاباشی بھی دے رہے تھے ہاں اسکی شادی والی بات پر بہت خوش تھے وہ ۔نہ صرف بابا بلکہ چاچی اور چاچا بھی بہت خوش تھے اور مصطفیٰ یہ سوچ رہا تھا کہ آخر وہ بدلہ لینے کے لیے کیا پلان کر رہی ہے خیر جو کچھ بھی تھا اس کی تو خواہش پوری ہونے جارہی تھی جس کے لئے وہ بہت خوش تھا ۔ گھرمیں رخصتی کی تیاریاں بھی شروع ہوچکی تھی کیونکہ باقی ساری رسمیں تو ہو ہی چکی تھی ۔ بابا اور ماما نجانے کیا کیا سوچتے رہے وہ اپنی اس سوچ پر افسوس کر رہے تھے کہ انہیں اپنی بیٹی پر یقین نہیں جس طرح سے دعا شادی سے انکار کر رہی تھی بابا اور ماما کی ذہن میں سب سے پہلا یہی خیال آیا اگر وہ شادی سے انکار نہ کرتی تو شاید وہ بھی یہ سب کچھ کبھی نہ سوچتے ۔ خیر جو کچھ بھی تھا اب ان کی دعا واپس آ چکی تھی اور شادی کے لئے بھی راضی تھی ۔ جبکہ دوسری طرف دعا مصطفیٰ سے بدلے لینے کی پلاننگ کر رہی تھی